جو چیز ہمیںبوڑھا کرتی ہے وہ عمر نہیں!
جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، ہماری عمر میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے آگے بڑھاپے کا دور شروع ہو جاتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ نظام جسمانی میں تحلیل اور گھسائو کا عمل کم سے کم واقع ہو تاکہ ہماری قوتیں زیادہ سے زیادہ مدت تک محفوظ اور قائم رہ سکیں۔ہم عمر کی مدت کو ’’سالگر ہوں‘‘ کی اصطلاح میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری چالیسویں سالگرہ آگئی اور یہ ہماری ساٹھویں سالگرہ آگئی، حالانکہ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو جوچیز ہمیں بوڑھا کرنے والی ہے وہ برسوں کا اضافہ نہیں ہے بلکہ ہماری بری عادات اور رذیل و ادنا خصلتیں ہیں جو ہمارے جسم و دماغ کو بوڑھا کردیتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑھاپے کے سامنےہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اس سے بچنے اور محفوظ رہنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی دریا میں گر کر پانی کے بہائو کے ساتھ بہتا چلا جائے اور یہ محسوس تک نہ کرے کہ خدا نے اسے تیرنے کی قوت بھی عطا کی ہے۔ وہ کوشش کرتا تو معمولی سی جدوجہد سے وہ پانی کے دھارے کے ساتھ بہنے کے بجائے اس میں سے تیر کر نکل سکتا تھا۔
یہ سوچنا تو بے وقوفی کی بات ہوگی
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں سے جوانی کو ایک غیر معین مدت تک قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ سوچنا تو بے وقوفی کی بات ہوگی۔ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ تو بس اتنا ہی ہے کہ کچھ برسوں کے لیے بڑھاپے کو مؤخر کردیں اور اپنے آپ کو بہت سے تکلیف دہ عوارض سے بچالیں اور یہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ابھی پنشن کی عمر کو پہنچتے بھی نہیں کہ وجع القلب، قروح معدہ وامعا (معدہ اور آنتوں کا زخم) اور اسی طرح کے دوسرے عوارض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن و دماغ اور نظام جسمانی پر اتنا بار ڈال لیتے ہیں کہ بیمار پڑجاتے ہیں حالانکہ معمولی سی کوشش سے وہ اس بار سے خود کو بچا سکتے تھے۔بعض لوگ حسد، کینہ اور تخریب پسند ی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جل جل کر اپنے آپ کو گھن لگالیتے ہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی سے اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔
دولت جمع کرنےکی دھن ‘ کچھ نہیں چھوڑتی
بعض صاحبان حرص و لالچ میں مبتلا ہوکر بے تحاشاپیسہ جمع کرنے کی دھن میں لگ جاتے ہیں تاکہ وہ جب قبر میں پہنچیں تو امیر ترین آدمی کہلائیں۔ دولت جمع کرنے کی دھن ان کی زندگی کی مدت کو اس حد تک کم کر دیتی ہے کہ اپنی جمع شدہ دولت کو استعمال کرنے کی بھی نوبت نہیں آتی۔اسی طرح خوف آدمی کے قلب و اعصاب کو نہایت کم زور کردیتا ہے۔ جدید تحقیقات اور تجربات کی رو سے آج یہ امر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جسم اور دماغ ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے جذبات کا مرکز ہے اور ان جذبات کا اثر ہمارے نظام جسمانی پر برابر پڑتا رہتا ہے۔
ذرا غیض و غضب کا دورہ خود پر پڑنے دیجئے
ذرا کبر و غرور کو اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع دے دیجئے پھر دیکھے کہ اعصاب میں کس درجہ تنائو پیدا ہو جاتا ہے۔ ذرا غیض و غضب کا دورہ اپنے اوپر پڑنے دیجئے پھر دیکھئے کہ یہ کس طرح آپ کے دوران خون میں حدت پیدا کرتا اور قلب کو متاثر کرتا ہے۔
ذرا لالچ و حرص کو اپنے اوپرقبضہ کرنے دیجئے
ذرا لالچ اور حرص کو اپنے اوپر قبضہ کرنے دیجئے پھر دیکھئے کہ یہ کس طرح آپ کو گھن کی طرح کھا جائے گا اور خرابی جگر کے باعث آپ کے چہرے پر زردی کھنڈ جائے گی۔
نفرت و حسد آپ کے جسم کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا
ذرا نفرت و حسد کو اپنے دل میں موجزن ہونے دیجئے پھر دیکھیے کہ یہ کس طرح آپ کے خون کے دبائو کو بڑھا دیتا ہے اور جسمانی اعتبار سے کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔
اچھے جذبات و خیالات ہمارے جسم کیلئے ایندھن
جب حقیقت حال یہ ہے تو میں نہ سمجھتا کہ جسمانی صحت کا کوئی تصور اپنے ذہن کو غلط قسم کے جذبات و تصورات سے پاک کیے بغیر آپ کرسکتے ہیں۔اچھے جذبات و تصورات درحقیقت ہمارے جسم کے انجن کے لیے ایک صحیح قسم کے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہماری بیماریوں کے اسباب میں ہماری ذیل خصلتیں اور ہمارے کردار کی مذموم صفات کو بہت بڑا دخل ہے اور اگر طبیب یا ڈاکٹر ہماری ان پوشیدہ خرابیوں کا جائزہ نہیںلے سکتے تو کم سے کم ہم خود اس اہم نکتے کو سمجھ کر پیدائش امراض کے اس نفسیاتی پہلو سے کسی طرح بھی صرف نظر نہ کریں اور اپنی ان پوشیدہ اور چھپی ہوئی خرابیوں اور مصائب کو دور کرنے کی فکر کریں۔
سمندر میں برف کا بڑے سے بڑا تودہ بھی بہت چھوٹا سا نظر آتا ہے۔ اب اگر کوئی جہاز اس برف کے تود ے کا جو تھوڑا سا حصہ باہر نظر آرہا ہے اس کو دیکھ کر سمجھ لے کہ یہ میرے جہاز کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اس کے اس تین چوتھائی حصے کا کوئی نوٹس نہ لے جو پانی کے اندر چھپا ہوا ہے تو وہ اپنے جہاز کو شدید خطرے میں مبتلا کردے گا۔ اسی مثال پر آپ اپنی ذہنی کیفیات اور اونا خصائل و جذبات کو قیاس کرلیجئے جو دماغ کے اندر چھپے ہوئے ہیں اور نظر نہیں آتے۔
آئیے! ناخوشگوار واقعات اور تلخ تجربات کو بھلادیں
ہمارے دماغ کے اندر ذاتی تجربات و مشاہدات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ناخوشگوار واقعات اور تلخ تجربات کو بھلا دیں، لیکن وہ ہمارے تحت الشعور میں رہتے ہیں اور ان کا اثر ہمارے نظام جسمانی پر پڑتا ہے۔
اپنےسے زیادہ مصیبت زدہ لوگوںکو دیکھیں
بعض لوگوں کی یہ عادت کہ وہ پرانی تلخیوں کو کرید کرید کر سامنے لاتے ہیں اور خوب کڑھتے ہیں۔ یہ بات نہایت تکلیف دہ اور ضرر رساں دیکھے گئے۔ چنانچہ انہیں چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے زیادہ تکلیف اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کو دیکھیں اور اپنے برے اور خراب دنوں کو یاد کرنے کے بجائے ایسے ہزاروں لوگوں پر نگاہ رکھیں جو اپاہج، مفلوج، نابینا اور پاگل ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں بہت سی تکالیف و شکایات سے بالکل محفوظ رکھا ہے۔ ایسے ذہن کے پیدا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بڑی حد تک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔
لوگوں کی امداد و اعانت کی طرف متوجہ ہوں!
ایسے لوگوں کو دوسرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان(باقی صفحہ نمبر52 پر)
(بقیہ:پاکیزہ جذبات)
لوگوں کی امداد و اعانت کی طرف متوجہ ہوں جو ان کے مقابلے میں زیادہ گرے ہوئے اور پست ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ان کی دیکھ بھال اور امداد کی طرف لگا دیں گے تو اپنی تکالیف و شکایات کو بھول جائیں گے۔ ہر وہ گھڑی جو دوسروں کی امداد و اعانت میں صرف ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہی آپ کے لیے حقیقی سکون و راحت کی گھڑی ہوگی، اس لیے کہ ہمارا دماغ یک طرفہ راستہ ہے۔ جس وقت وہ دوسروں کے متعلق سوچ رہا ہوگا تو اپنے متعلق نہیں سوچ سکتا۔بہت سے لوگ محض اپنی اغراض اور مفادات ہی کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ جہاں کسی کو کچھ دینے کا سوال آیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ امداد و اعانت سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور ایسا موقع نہیں آنے دیتے کہ کوئی ان سے مانگ بیٹھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ان کی روح ہمیشہ تکلیف و اذیت میں رہتی ہے اور اس کا اثر ان کے نظام جسمانی پر کبھی نہ کبھی ضرور پڑ کر رہتا ہے۔آج کل کون ہے جو کسی نہ کسی الجھن اور پریشانی میں گرفتار نہیں ہے۔ گھریلو، کاروباری اور اجتماعی قسم کی بے شمار الجھنیں اور پریشانیاں ہیں جو آدمی کو ہمہ وقت گھیرے رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم ان سے اپنے دماغ کو بالکل فارغ تو نہیں کرسکتے، لیکن اگر ہم سمجھ سے کام لیں اور ہزاروں ایسے لوگوں کی زندگیوں کو دیکھیں ہم سے بھی کہیں زیادہ پریشان ہیں اور اپنی پریشانیوں اور الجھنوں تجزیہ کرکے انہیں اطمینان کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں وہ حل ہوسکتی ہیں اور ہماری پریشانیوں میں بڑی حد تک کمی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دماغ کو بے بنیاد خوف، مایوس اور تلخیوں سے آزاد کرنے کی کوشش کریں اور تعمیری اور اخلاق کو نشوونما دینے والے کاموں میں لگے رہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں